توہین اسلام اور شرکیہ و کفریہ کلمے

توہین اسلام اور شرکیہ و کفریہ کلمے

دینِ اسلام کے خلاف سازش  کرنے والوں کا آسان ھدف شعائرِ اسلام کی توہین کرنا ہوتا ہے جس کے لئے قصے‘  کہانیاں‘ لطیفے و ڈرامے اورمحاورات وغیرہ گڑھے جاتے ہیں اور ان کے زریعے الفاظ و محاوروں  کے معنی و مفہوم  بدل دیئے جاتے ہیں۔ یہ نئی اصطلاحات غیر محسوس طریقے سے زبان زد عام ہوجاتی ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ دیندار طبقہ بھی ان اصطلاحات کو شعائرِ اسلام کی توہین سمجھنا چھوڑ کر بغیر سوچے سمجھے اپنی روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرنے لگتا ہے۔
اردو زبان میں ایسے بعض الفاظ و محاورے ہیں‘ جن سے شعائرِ اسلام کی توہین یا قرآن و سنت کی تضحیک ظاہر ہوتی ہے لیکن ہم اردو بولنے بغیر جھجک کے انہیں بول رہے ہوتے ہیں۔
ذیل میں ایسے چند امثال دیئے جا رہے ہیں:
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

بسم اللہ ہی غلط : ابتدا ہی غلط ہو جانا یا چھوٹتے ہی غلطی کا ارتکاب کرنا۔
*** اردو بول چال میں بہت عام ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ایک بنیادی شعارِ اسلام ’’ بسم اللہ ‘‘ کی توہین کر رہا ہے۔ اسلام بیزار سازشی ذھن نے اس محاوے کو ’ بسم اللہ ‘ کی غلط معنی و مفہوم میں استعمال کیا اور آج یہ عام ہو گیا ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

صِلَوۃ ( زیر ص‘ زبر ل‘ جزم ت) اردو میں معنی ہیں دشنام ‘ فصیحتے ‘ گالیاں ‘ ہجو وغیرہ
صلوات سنانا ‘ صلواتیں سنانا: کوسنا، دشنام دینا، بُرا بھلا کہنا وغیرہ
*** جبکہ قرآن و سنت کی اصطلاح میں’’ صلوٰۃ ‘‘ نماز‘ عبادت‘ درود بھیجنے‘ دعا دینے‘ تحسین و تبریک اور تعظیم کرنے وغیرہ کے معنی میں آتا ہے ‘ مثلاً قرآن میں آیا ہے:

أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾سورة البقرة
ترجمہ: ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں 

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨﴾سورة البقرة
ترجمہ: نمازوں کی حفاﻇت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو 

اور صَلَوَات حضور اکرم ﷺ پر درود کیلئے بھی بولا جاتا ہے:


مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) صحیح الجامع : ۶۳۵۹(
’’
جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔ 
‘‘
’’ صلوٰۃ‘‘ جیسی اسلامی شعار کے تلفظ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے کسی اسلام دشمن نے اسے گالی بنا دیا۔  تلفظ کی یہ تبدیلی صرف اردو لغت میں ہے عام بول چال میں کوئی فرق نہیں ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

صَفًّا صَفًّا : بے نام و نشان، منہدم‘ ویران ‘ برباد
صَفًّا صَفًّا کرناَ : نیست و نابود کرنا، استیصال کرنا۔
صَفًّا صَفًّا ہونا : ویران ہونا، تہس نہس ہونا۔
***  صَفًّا صَفًّا کی ترکیب قرآنی آیت کا حصّہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴿٢٢﴾ سورة الفجر
ترجمہ: اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اِس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے 

صَفًّا صَفًّا کا ترجمہ صف در صف اور منظم ہے جب کہ اردو محاورے میں اس کا بالکل الٹ معنی کر دیا گیا ہے۔
۔۔۔ یہ قرآنی الفاظ کی تضحیک اور اسلام کے اُصولِ عمل، نظم و ضبط پر ضرب لگانا ہے
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

علیک سلیک : مراد ہے معمولی ملاقات، محض جان پہچان اور واجبی شناسائی۔
*** ’’ السلام علیکم ‘‘جو امنِ عالم کے قیام کے لئے اسلام کا منشور ہے، ایک دوسرے سے پیار، محبت اور خلوص میں اضافے کا موجب ہے، اُسے لفظی طور پر بگاڑ کر انتہائی سطحی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

شیخ چِلّی : بے وقوف، مسخرا اور احمق۔
شیخی باز : مغرور، ڈینگیں  مارنے والا اور گھمنڈ کرنے والا۔
شیخی بگھارنا : بڑائی ظاہر کرنا، نمود و نمائش کرنا۔
شیخی جھاڑنا : نیچا دکھانا۔
شیخی مارنا : اِترانا ‘ تکبر کرنا
*** یہ الفاظ و محاورات شیخ کی نسبت سے تشکیل پائے ہیں۔ عربی میں ’’ شیخ ‘‘  کا معنی علم  و عُمر اور مرتبہ کے اعتبار سے  بلند شخص کے ہیں۔ گویا شیخ جو عزت و احترام اور تقدس کا حامل لفظ ہے، اُسے بے وقوفی، تکبرّ، بُرائی، عزّت و آبرو کو پامال کرنے، نمود و نمائش اور غرور جیسے خصائل سے متصف کیا گیا ہے۔ ذہنی خباثت اور دینِ اسلام کے خلاف سازش کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس مقدس لفظ کو ذلیل حرکتِ انسانی سے وابستہ کر دیا گیا ہے ۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

حِکمتی : اس سے مراد چالاک، مکار اور عیّار شخص ہے۔
*** یہ حکمت جیسے مقدس لفظ کی توہین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ 

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٢٦٩﴾ سورة البقرة
ترجمہ: جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

خدمتی : ملازم ‘ نوکر‘  چاکر‘ یا تحفہ‘ پیش کش‘ نذرانہ جو کسی بُرے آدمی کو دیا جائے‘
خادم : اس سے مرادنوکر‘ چاکر‘  ملازم‘ خدمت گار ہے۔
*** اس لفظ کے مفہوم کے تعیّن اور استعمال کے پس منظر میں  ذات پات، اونچ نیچ اور طبقاتی سوچ کارفرما ہے۔ اسلام کی نظر میں  خدمت کرنے والے انسان کی عظمت مسلمہ ہے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے:
سَیّدُ القَومِ خَادِمھُم
’’ قوم کا سردار درحقیقت اپنی قوم کا خدمت گار ہی ہوتا ہے‘‘
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

چور کے داڑھی میں تنکا :  کسی الزام یا طعنے کو اپنی طرف گمان کرنا
داڑھی نوچ ڈالنا : ذلیل و رسوا کرنا۔
رِیشِ قاضی : لفظی معنی ہے قاضی کی داڑھی، لیکن اصطلاحاً شراب کی بوتل کے ڈاٹ (ڈھکن) اور بھنگ چھاننے کے کپڑے کو کہا جاتا ہے۔
ریِشِ بابا : لفظی معنی ہے بابا کی داڑھی، لیکن اصطلاحاً شراب بنانے کے لئے انگور کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے۔
*** داڑھی جو شعائرِ اسلام میں  شامل اور ایمان کی علامت ہے، کس توہین آمیزطریقہ سے اسے محاوروں  میں  استعمال کر کے اسلام دشمنوں داڑھی اور داڑھی والوں کا وقار عوام الناس کے اذہان میں گرانے کی ناپاک سعی کی گئی ہے جو کہ ان اسلام دشمنوں کی اپنی ہی ذلیل اور پسماندہ اذہان کی عکاسی کرتی ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------

اسکے علاوہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو مجروح کرنے کیلئے بعض شرکیہ و کفریہ محاورے و جملے بھی اردو میں داخل کئے گئے ہیں جس کی ایک مثال درج ذیل ہے:
جنم جنم کا ساتھ دینا : اس محاورے کا مفہوم ہے وفاداری کو مرتبۂ کمال تک پہنچانا۔
*** لیکن محاورے کے الفاظ اور اس کی ترکیب میں ہندوؤں کا ’’ آوا گون ‘‘ کے مذہبی نظریے کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ دراصل یہ عقیدۂ تناسخ اور حُلولِ باری کا اظہار ہے۔ آوا گون کو Incarnationاور  Transmigration of Soulبھی کہتے ہیں۔ یہ اسلامی نظریۂ حیات و ممات اور آخرت کی ضد ہے۔ اردو زبان و ادب میں  اس کے استعمال سے ایک مشرکانہ اور کافرانہ نظریے کی ترویج ہوتی ہے جس کا عام اردو بولنے والے ادراک نہیں  رکھتے۔
 ------------------------------------------------------------------------------------------------------

یہ تو ماضی کی باتیں ہیں لیکن آج حالات کہیں زیادہ گمبھیر ہیں۔
آج میڈیا کی یلغار ہے‘ تہذیب و ثقافت کا ٹکراؤ ہے۔
اور پھر اردو ایک ایسی زبان ہے جس میں دوسرے زبان کے الفاظ کو سمو لینے کی وسعت ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ایک طرف لبرل اور اسلام دشمن طبقہ اردو زبان میں مزید شعائرِاسلام کی توہین اور قرآن و سنت کی تضحیک کرنے والے مواد کا روز بروز اضافہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری نوجوان نسل دن بدن اردو سے  دور ہوتی جارہی ہے اور اردو سے دوری دین اسلام سے دوری کا باعث بنتا جارہا ہے۔
ایسے میں دین اسلام کا درد رکھنے والے اردوداں دانشوروں کو سامنے آنا چاہئے اور اردو میں پہلے سے موجود توہین اسلام اور شرکیہ و کفریہ کلمے کا خاتمہ اور مزید کی روک تھام کی سعی کرنی چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر کنندہ : محمد اجمل خان

Comments